منصوبہ

اس وقت دنیا میں موجودہر چوتھا انسان گواہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ زبان سے ادا کئے گئے یہ الفاظ، دل کی گواہی کے ساتھ ان انسانوں کو آخری نبیﷺ کی امت بنا دیتے ہیں ۔ امت ِ محمدیہ کا ہر فرد ایمان رکھتا ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے بھیجی گئی آخری الہامی کتا ب ہے جو انسانیت کو صراط مستقیم کا راستہ دکھاتی ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ محمد ﷺ، جن کے قلب مبارک پر یہ کتاب اتری تھی، اس کا بہترین نمونہ ہیں اور ان کے اْسوہ حسنہ پر چلنے ہی سے دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔

یہ اس ایمانی تیقن کا معجزہ ہے کہ ہر مسلمان، خواہ وہ قرآن اور سیرتِ نبی ﷺ کے اصل مصادر تک رسائی رکھتا ہو یا نہ، یہ جانتا ہے کہ وہ ربِ کریم جس نے رحم ِمادر میں اس کی تخلیق کی ، وہ اْس کی زندگی کا دورانیہ بھی طے کر چکا ہے، اس کا رزق مقدر ہو چکا ہے اور اس دنیا میں محدود وقت گزارنے کے بعد اسے اپنے رب سے ملنا ہے۔ ہر مسلمان ایمان رکھتا ہے کہ ایک ایسے دن جب انفس وآفاق سے پرے سے ایک با جبروت آواز سنائی دے گی جو پہاڑوں کو روئی کے گالوں کی طرح تتر بتر کر دے گی اور جس کی دہشت سے تمام حمل والیوں کے حمل ساقط ہو جائیں گے، اور اس دنیا کا سارا نظام ختم ہوجائے گا، اسے تمام دوسرے انسانوں کے ساتھ زندہ کیا جائے گا اور اس کے اعمال کا حساب ہوگا، اللہ جل شانہٗ اپنا فیصلہ صادر فرمائیں گے جس کے نتیجے میں وہ ہمیشہ قائم رہنے والی جنت یا جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ یہ بنیادی عقائد ایمانیات کا حصہ ہونے کے ناتے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

تاہم آج کے دور میں ہم سب کو ان بنیادی عقائد سے بڑھ کر اِس روح پرور تصور ِحیات کی بہت سی دوسری جہات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم درپیش صورتِ حال اور عہدِ حاضر کے مسائل کو قرآنِ حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھ سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ یہ کائنات کیسے ظہور پذیر ہوئی، حیات اور موت کا قرآنی تصور کیا ہے، جبر اور قدر، جنگ اور امن، معاش اور ازدواجی زندگی کے بارے میں اللہ کریم نے اپنی کتاب میں کیا کہا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ نےہمیں زندگی کے لیل و نہار سے گزرنے کے کیسے گوہرِنایاب عطا کیے ہیں۔ بہت سے دوسرے سوال جو ہر سوچنے والے انسان کے ذہن میں ابھرتے ہیں، تقاضا کرتے ہیں کہ ہم اپنے دین کے دونوں کلیدی مصادر، یعنی قرآن اور سنت، اور ان پر صدیوں پر پھیلے ہوئے علمی کام سے کماحقہ آگاہی حاصل کر کے ان سے ایسا قلبی، روحانی، اور ذہنی تعلق پیدا کریں جو کارزارِ حیات میں یقین اور علم کے ساتھ ہماری راہنمائی کر سکے۔ قرآن اور سنت کی تفہیم کے لئے موجو دوسیع علمی ذخیرے کی اکثریت فصیح عربی زبان میں ہے جسے آج صرف ۸ سے ۱۰ فیصد مسلمان ہی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ اس وجہ سے نا صرف ان بنیادی مصادر کے تہہ در تہہ معانی اور لسانی وسعت تک رسائی ناممکن ہو گئی ہے بلکہ مسلمانوں کی اکثر یت قرآن کی عقلی اور تصوراتی دنیا سےبھی کٹ چکی ہے۔ حتیٰ کہ سو میں سے صرف سولہ سترہ مسلمان ہی ایسے ہیں جو اللہ کی کتاب کو کھول کر بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھ سکتے ہوں۔۔۔